Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

  فیاض بیڈ پر آنکھیں بند کئے نیم دراز تھے جب سے مثنیٰ کی ان سے اتفاقیہ ملاقات ہوئی تھی وہ سب سے کچھ زیادہ ہی تنہائی پسند ہو گئے تھے ان کی نگاہوں میں مثنیٰ کا چہرہ اس کا دھیما باوقار رکھ رکھاؤ گھومتا رہتا تھا شوخ و چنچل  اونچی آواز میں باتیں کرنے والی  بلند قہقہے لگانے والی مثنیٰ کم گو اور سنجیدہ ہو گئی تھی۔
”وہ خوش تھی یا مجھے جتانے کی کوشش کر رہی تھی؟ اگر وہ مجھے چھوڑ کر خوش ہے تو پھر اس کی آنکھوں میں بار بار امڈ آنے والی نمی کیوں تھی؟ جس کو وہ بہت نرمی سے ٹشو میں جذب کرتی تھی  وہ خوش تھی تو اس کے وجود سے ایک اداسی کیوں لپٹی ہوئی تھی؟ وہ مانوس اداسی جو میرے وجود سے بھی لپٹ گئی میرے دل کو بھی اس نے اپنی گرفت میں جکڑ لیا ہے اور جس سے میں شاید آخری سانس تک پیچھا نہ چھڑا پاؤں گا۔


“ ان کی آنکھوں کے گوشوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
”جب تم مجھ سے جدا ہوئی تھیں تو میں نے شدت سے یہ خواہش کی تھی کہ اب میں کبھی بھی تمہارا چہرہ نہ دیکھ پاؤں کہ مجھے معلوم تھا میں تمہیں دیکھوں گا اور پھر بھول نہ پاؤں گا  ہوا نا ایسا ہی میرے ساتھ  تمہیں دیکھا اور پھر کچھ مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے اور یہ بے اختیاری عمل ہے میں دہرے درد میں مبتلا ہو گیا ہوں  تمہیں کھونے کا دکھ حد سے سوا ہو گیا ہے تو دوسری طرف ضمیر کے کوڑوں کا بھی شکار ہو رہا ہوں  تمہیں یاد کرکے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہوں۔
آہ! یہ کیسا مقام ہے میرے لئے تم جو کل تک میرے دل میں دھڑکن کی طرح بستی تھیں  آج میرے لئے شجر ممنوعہ ہو  غیر عورت ہو  بیوی کے ہوتے ہوئے میں غیر عورت کے بارے میں سوچ کر اس کے بھی حق سلب کر رہا ہوں۔“
”فیاض! آپ سو رہے ہیں؟ مگر یہ آنسو بہہ رہے ہیں؟“ صباحت اندر آئیں تو ان کی بند آنکھوں سے بہتے آنسو انہیں چونکا گئے۔
”سر میں درد ہو رہا ہے اس وجہ سے۔
“ وہ آہستگی سے گویا ہوئے۔
”میں چائے اور ٹیبلٹ لاتی ہوں آپ کیلئے…“
”بات سنو، ادھر آؤ۔“ وہ آنکھیں کھول کر گویا ہوئے۔
”جی!“ وہ قریب آئیں تو انہوں نے ہاتھ بڑھا کر ان کو قریب بٹھاتے ہوئے آزردگی سے کہا۔
”مجھے ٹیبلٹ کی ضرورت نہیں ہے اپنے ہاتھوں سے سر دباؤ آرام آ جائے گا  مجھے ضروری تو نہیں ہر درد کیلئے پین کلر ہی کھائی جائے۔
”آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں ، اب وہ دور نہیں رہے جب بغیر ٹیبلٹ کھائے درد بھاگ جایا کرتا تھا، اب تو کھانا کھائیں یا نہیں کھائیں  میڈیسن تو کھانی پڑتی ہے۔“
”اگر تم سر دبا دو گی تو کیا ہو جائے گا؟“
”مجھ سے سر  پاؤں وغیرہ نہیں دبائے جاتے فیاض۔“ وہ کہہ کر آرام سے وہاں سے چلی گئی تھیں انہوں نے بڑے کرب سے آنکھیں بند کر لی تھیں  ماضی کا ایک دریچہ وا ہو گیا۔
”یار! درد میں آرام آ گیا ہے بس  اب ہٹ جاؤ۔“
”خاموش ہو جاؤ پلیز! مجھے معلوم ہے ابھی آپ کے درد ہے جب یہ ختم ہو گا مجھے معلوم ہو جائے گا  آپ خاموشی سے لیٹے رہیں۔“ مثنیٰ نے بہت نرمی سے ان کے سر کو دباتے ہوئے کہا۔
”تمہیں معلوم ہو جائے گا۔ کس طرح معلوم ہوگا؟“ اس نے اٹھ کر اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئے شوخی سے کہا۔
”میرے دل کو معلوم ہو جاتا ہے۔“ وہ مسکرائی۔
”ہوں  یہ بات ہے اور کیا کیا معلوم ہوتا ہے تمہارے دل کو؟“
”آپ زیادہ باتیں مت بنائیں  لیٹ جائیں میں تیل لے کر آ رہی ہوں  آپ کے مساج کرتی ہوں۔“ وہ بیڈ سے اترتے ہوئے گویا ہوئی تھیں۔
”ایک گھنٹے سے سر دبا رہی تھیں  اب ایک گھنٹہ مساج میں لگاؤ گی  اتنی محنت کرنے سے بہتر ہے ایک پین کلر دے دیا کرو۔
“ وہ اس کا آنچل تھام کر محبت سے گویا ہوئے۔
”جو محبت اور شفاء ہاتھوں میں ہوتی ہے وہ پین کلر میں کہاں۔“ ماضی کی بازگشت ان کی آنکھوں میں پھر نمی بھرنے لگی تھی۔
###
ساحر نے فون پر اس کو وہ حیات بخش خوش خبری سنا دی تھی جس کو سننے کیلئے وہ رات و دن دعائیں مانگ رہی تھی  آج وہ بے حد خوش تھی۔ رات گئے یہ گھر اس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ دینا تھا مارے خوشی کے اس کے پاؤں زمین پر ہی نہیں ٹک رہے تھے  وہ تتلی کی مانند پورے گھر میں منڈلاتی پھر رہی تھی  اس کے مزاج میں موجود وہ چڑچڑا پن و بے زاری غائب تھی اس کی اس خوشی کو گھر میں سب نے ہی محسوس کیا تھا۔
وہ چچی کے ساتھ کچن میں کھانا بنانے میں مدد کر رہی تھی  آنگن میں کھانا کھاتے ہوئے فیض محمد نے قریب بیٹھی ہوئی فاطمہ سے جتانے والے لہجے میں مسکرا کر کہا۔
”دیکھو نیک بخت! کتنی خوشی خوشی کام میں لگی ہوئی ہے  تم تو ہر وقت شکایت کرتی رہتی ہو میری بچی کی  دیکھ لو اب کس طرح کام میں مصروف ہے۔“
”میں دشمن نہیں ہوں رخ کے ابا اس کی  بلکہ کوئی ماں اپنی اولاد کیلئے برا نہیں چاہے گی اور جہاں بات بیٹی کی آ جاتی ہے وہاں تو ہر ماں کا دل بے حد گداز ہو جاتا ہے۔
”پھر کیا بات ہے فاطمہ! تم مجھے اداس و غمگین نظر آ رہی ہو۔“
”چند دن میں وہ ہم سے رخصت ہو جائے گی  وداع کر دیں گے ہم اسے اور اسی جدائی نے مجھے دکھی و مضطرب کر رکھا ہے۔“ فاطمہ کے آنسو خساروں پر بہہ رہے تھے۔
”جھلی ہو گئی ہے فاطمہ! ہم اپنی لاڈو کو کون سا میلوں دور وداع کریں گے  رخ ہمارے گھر میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہی رہے گی۔
بہت خوش رکھے گا گلفام اس کو  شادی کو ابھی دو ہفتے پڑے ہیں جو کام باقی رہ گیا ہے وہ کر لو  وقت پر یاد آیا تو پریشانی ہو گی  میں صبح مال کے سلسلے میں سندھ جاؤں گا۔“
”تیاری تو ساری ہی مکمل ہے  چھ ماہ سے ہم تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں  وقت پر کچھ رہ بھی گیا تو آ جائے گا۔“
ادھر وہ لوگ ماہ رخ کے بہترین مستقبل کی باتیں کر رہے تھے اور اس طرح ماہ رخ کچن میں چچی کا ہاتھ بٹانے کے ارادے سے نہیں گئی تھی بلکہ وہ ایک پلاننگ کے تحت وہاں موجود تھی  آج رات اس نے اس گھر کو چھوڑ دینے کا ارادہ کر لیا تھا  اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اس نے موقع پاتے ہی ایک دن میڈیکل سٹور سے نشہ آور میڈیسن خرید کر رکھ تھی جو اس نے چچی سے نگاہ بچا کر دودھ میں انڈیل دی تھی کیونکہ گھر میں سب کی عادت تھی رات کو دودھ پینے کی اور گھر والوں کی یہ عادت اس کیلئے نجات دھندہ بن گئی تھی۔
بہت فرمانبردارانہ انداز میں اس نے گلاسوں میں دودھ بھر کر پہلے چچا چچی کے کمرے میں پہنچائے تھے جواباً بہت ساری دعاؤں سے اس کو نوازا گیا تھا پھر وہ ٹرے اٹھائے  امی ابو کے کمرے میں آئی تھی  بہت محبت سے ان کو گلاس پیش کئے تھے۔
”سدا خوش رہو میری بیٹی! اللہ تم جیسی سعادت مند بیٹی ہر والدین کو عطا کرے۔“ ابو نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر دعا دی۔
لمحے بھر کو اس کا دل کانپ اٹھا تھا  آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا تھا قبل اس کے کہ وہ لڑکھڑا کر گرتی فاطمہ نے تیزی سے آگے بڑھ کر اسے تھام لیا تھا۔
”سنبھل کر میری بچی! یہاں بیٹھو آؤ میرے پاس۔“ انہوں نے بڑی محبت سے اسے اپنے قریب بٹھاتے ہوئے کہا۔
”یہ دودھ تم پیو  میں اپنے لئے اور لے آؤں گی۔“ انہوں نے شفقت بھرے انداز میں گلاس اس کے منہ کے قریب کیا۔
”نہ… نہیں امی! میں یہ دودھ نہیں پیوں گی۔“ وہ بری طرح گھبرا اٹھی تھی۔
”تم کمزور ہو گئی ہو اب تمہارا خاص خیال رکھنا پڑے گا مجھے۔“ وہ اس کی گھبراہٹ وگریز کو کیونکر جانتی بھلا؟
”نہیں امی! یہ آپ پئیں  میں نہیں پی رہی۔“
”تم کیوں نہیں پی رہی ہو؟“
”ارے نیک بخت! کیوں بچی سے بحث کر رہی ہو؟ وہ اتنی محبت سے لائی ہے تو پی لو۔
رخ کی جب مرضی ہو گی تو پی لے گی۔“ فیض محمد کی مداخلت پر اس کی جان میں جان آئی اور وہ اس وقت تک وہاں کھڑی بے قراری سے ان کو دیکھتی رہی جب تک انہوں نے گلاس خالی کرکے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے وہ تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی کچن میں آئی  گلاس اور ٹرے سنک میں رکھ کر وہ دبے دبے قدموں سے چچا اور چچی کے کمرے کی طرف بڑھنے لگی  اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا  ٹھنڈے موسم میں بھی وہ پسینے میں شرابور ہو رہی تھی۔
اسے ایک خوف تھا۔
اسے ایک فکر تھی۔
اگر دوا نے اپنا کام نہیں دکھایا یا انہیں بے ہوش ہونے میں ٹائم لگا تو وہ پھر کبھی بھی اپنی خواہشوں کو نہ پا سکے گی  اس دنیا میں سب سے بڑا دکھ خواہشوں کا پورا نہ ہوتا ہے اور وہ اس دکھ سے مرنا نہیں چاہتی تھی۔
بلی کی چال چلتی ہوئی وہ چچی کے کمرے کی کھڑکی کے قریب پہنچی تھی بے حد آہستگی سے پردہ ہٹا کر اندر جھانکا تھا اور دوسرے لمحے اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو گیا  اندر کی صورت حال عین اس کی توقع کے مطابق تھی۔
وہ دونوں بے سدھ پڑے ہوئے تھے اس نے اندر جا کر احتیاطاً ان کو ہلا جلا کر دیکھا زیادہ مقدار میں دی گئی دوا نے انہیں بالکل ہی بے سدھ و مدہوش کر ڈالا تھا۔
وہ تیزی سے کمرے سے نکلی  دروازہ بند کرکے باہر سے کنڈی لگا کر وہ امی  ابو کے کمرے میں گئی تھی وہ بے ہوش ہو چکے تھے۔ فاطمہ ڈھے جانے والے انداز میں پلنگ پر پڑی تھی جبکہ فیض محمد کروٹ کے بل لیٹا تھا اور اس کا ایک ہاتھ سرہانے سے لٹک رہا تھا۔
ان کی بے ہوشی سے مطمئن ہو کر وہ آگے بڑھی تھی معاً اس کا آنچل فیض محمد کے لٹکے ہوئے ہاتھ سے پھنس گیا تھا۔
”آہ…“ اس کا گویا دل اچھل کر حلق میں آ گیا  خوف زدہ نگاہوں سے اس نے باپ کے چہرے کی طرف دیکھا مگر وہاں ہوش مندی کے کوئی آثار نہیں تھے  اس چہرے پر مدہوشی طاری تھی  اس نے جھک کر ان کے ہاتھ میں لپٹا اپنا دوپٹہ ہٹایا تو اسے لگا گویا وہ التجا کر رہے ہوں  اپنی عزت کی بھیگ مانگ رہے ہوں  اسے روک رہے ہو  اس کا دل تو گویا اس لمحے پتھر ہو گیا تھا  اس نے ان کے ہاتھ سے دوپٹا ہٹایا اور بنا کسی پچھتاوے اور دکھ کے وہ کمرے سے نکل گئی تھی۔
ایک تھکانے دینے والی
اعصاب کوشل کر دینے والی
جدوجہد کے بعد سنہرا مستقبل اس کو ملا تھا جس کو وہ گنوا دینے کیلئے کبھی بھی تیار نہ تھی  یہاں بھی اس نے دروازے کے باہر سے کنڈی لگائی تھی اور پرسکون انداز میں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی جہاں اسے ایئر پورٹ جانے کی تیاریاں کرنی تھیں  وقت بھی اس کا ساتھ دے رہا تھا  جو آج گلفام کراچی سے باہر گیا تھا۔

   1
0 Comments